سیاٹل، امریکہ:
پوری دنیا کے ملازمین میں تنخواہوں کا فرق ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی ایذا کی وجہ بن رہا ہے، اس خلیج کو پاٹنے کے لیے ایک کمپنی کے مالک نے نہ صرف اپنے عملے کے ہر فرد کی تنخواہ کم ازکم 70 ہزار ڈالر سالانہ کردی بلکہ اس کے لیے اپنی تنخواہ میں سے بھی کٹوتی کردی۔
سال 2015ء میں گریویٹی پیمنٹس نامی کمپنی کے مالک کو کمپنی کی ایک اہلکار سے بات کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ 40 ہزار ڈالر سالانہ تنخواہ ہونے کے باوجود ان خاتون کا گزارہ نہیں ہورہا کیونکہ سیاٹل شہر میں رہائش بہت مہنگی ہے اور کرائے کے مکان کی بنا پر خاتون اپنے بچوں کی کفالت کرنے سے قاصر تھیں اور قرض میں پھنستی جارہی تھیں۔
اس کے بعد کمپنی کے سی ای او ڈین پرائس نے خود اپنی تنخواہ میں کمی کی جو لاکھوں ڈالر تھی اور اپنے ادارے کے ہر ملازم کی کم ازکم تنخواہ 70 ہزار ڈالر کردی۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے دو مکان بھی کرائے پر دے دیئے تاکہ مزید بچت کی جاسکے۔
شروع میں دوسری کمپنیوں کے مالکان نے اس فیصلے پر تنقید کی لیکن 2015ء میں بڑھائی جانے والی یہ تنخواہ اب بھی برقرار ہے اور ڈین کے مطابق اس کا کمپنی کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ اس سے قبل کمپنی کے ایک فیصد افراد ہی اپنا مکان خریدنے یا اقساط دینے کی سکت رکھتے تھے لیکن تنخواہ میں اضافے کے بعد کمپنی کے 10 فیصد ملازمین نے امریکا کے مہنگے ترین شہر میں اپنا مکان بنانے کا خواب پورا کیا ہے۔
کمپنی کے دو سینئر اہلکاروں نے یہ کہہ کر استغفیٰ دے دیا تھا کہ اس طرح ایک دم تنخواہ بڑھنے سے نئے اور کم عمر ملازم بے فکرے اور نااہل ہوجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور انہوں نے زیادہ مستعدی سے کام کیا۔ پھر تنخواہ بڑھنے سے بعض ملازموں نے دفتر کے پاس گھر کا انتظام کیا اور کمپنی کو رضا کارانہ طور پر زیادہ وقت دینے لگے۔
دوسری جانب لوگ کھانے پینے کی فکروں سے آزاد ہوئے ہیں اور پوری توجہ سے کمپنی کا کام کرنے لگے ہیں۔ ڈین کا خیال ہے کہ ان کے اس عمل کی پیروی دوسری کمپنیاں بھی کریں گی تاکہ تنخواہوں میں بڑھتے ہوئے فرق کو کم کیا جاسکے۔
0 comments: