سوشل میڈیا پر بچیوں کے ساتھ زیادتی کا ذمہ دار فنکاروں کو تصور کیا جارہا ہے،صارفین کا کہنا ہے کہ فنکار فحاشی کو فروغ دیتے ہیں جس کے باعث بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہےجبکہ ماہرہ خان نے اپنے اور ساتھیوں کے دفاع میں سامنے آگئیں ہیں۔
کراچی پریس کلب میں گزشتہ روز پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں پاکستان کی خوبرو اداکارہ ماہرہ خان ، زیبا بختیار ، گلوکار شہزاد رائے اور کرکٹر یونس خان نےشرکت کی اوراُس دوران انہوں نے بچوں کے ساتھ زیادتی اورقتل جیسے واقعات کو روکنے کے لیے بچوں کو آگاہی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےان مشہور شخصیات کا کہنا تھا کہ معصوم بچیوں کے ساتھ ہونے والے ایسے ہولناک واقعات کے ذمہ دار حکام ہیں، جو کہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لئے کسی قسم کے اقدامات نہیں کرتے۔ اداکارہ ماہرہ خان نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل ننھی زینب کا کیس ہمارے سامنے تھا اور اب پھرسے ہم ویسے ہی ایک کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔
ماہرہ خان نے کہا کہ بچیوں کوجنسی زیادتی و تشددسے بچاؤ کے حوالے سے تعلیم گھر میں اور پھر اسکولوں میں دینا بے حد ضروری ہے، شاید مستقبل میں پھر ہمیں زینب اور فرشتہ جیسےہولناک واقعات سننے کو نہ ملیں۔
ماہرہ کے اس بیان پر ایک ٹوئٹر صارف نے ماہرہ خان، زیبا بختیار اور شہزاد رائے کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’شوبز سے وابستہ افراد زیادتی کے کیسزکی آڑ میں اپنا ایجنڈا پھیلانا بند کریں، کیونکہ آپ لوگ فحاشی کو فروغ دیتے ہیں جو کہ بچیوں کے ساتھ زیادتی کی ایک بڑی وجہ ہے۔مہربانی کرکے پیچھے ہٹ جائیں۔ ‘
زروان علی نامی صارف کے ٹوئٹ کا ماہرہ نے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا کہ’ سچ میں؟ فحاشی کی وجہ سے کوئی شخص ایک 10 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اورپھر اسے قتل کردیتا ہے، ہمارے معاشرے میں چند لوگوں کی ذہنیت اس طرح کی ہے جو ایسی سوچ رکھتی ہے، یہ بہت شرم کی بات ہے ۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’میں پیچھے نہیں ہٹوں گی، میری آوازمیری مرضی، میں وہی کروں گی جو میرا دل چاہے گا۔‘
دوسری جانب گلوکار شہزاد رائے بھی اس معاملے پر خاموش نہیں بیٹھےاور اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے ٹوئٹ میں لکھا کہ ’زیادہ تر زیادتی کے واقعات اُن علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں میڈیا نہیں ہوتا اور وہاں بچوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ‘
اس کے علاوہ انہوں نے لکھا کہ’ ان تمام زیادتی و تشدد کے واقعات کے پیچھے طاقت ور اور اثرانداز شخصیات ہوتی ہیں۔
Source-
0 comments: