گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کہتے ہیں کہ میرے فیصلوں پر عمل کیا جاتا تو پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت ملتی۔
لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کہاکہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار، اسپیکرپنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی اور وزیر اعظم عمران خان سے اختلافات کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ میں استعفیٰ دے رہا ہوں وہ سن لیں کہ اب میدان سے بھاگا نہیں جا سکتا، کابینہ یا انتظامی تبدیلیوں اور ردوبدل سے کسی کو کسی قسم کی تشویش نہیں ہونی چاہیے۔
گورنر پنجاب نے بیرون ملک جمع کیے گئے فنڈز آب پاک اتھارٹی کو دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جب تک گورنر ہوں سرور فاؤنڈیشن کی فنڈنگ میں شرکت نہیں کروں گا، میرے لیے ہر فلاحی ادارہ اتنا ہی اہم ہے جتنا میرا ادارہ ہے، حلف لینے کے بعد کہا تھا کہ پاکستان کو کچھ دینے کے لیے آیا ہوں، 2013ء میں گورنر بنا تو کسی نے مفادات میں ٹکراؤ کا واویلا نہیں کیا،اب گورنر بنا ہوں تو مفادات کے ٹکراؤ کا شور کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گورنر بننے کے بعد پینے کے صاف پانی کے لیے مہم کا آغاز کیا،کسی نےپانی کے لیے فنڈ اکھٹا کرنے پر اعتراض نہیں کیا، اپنے خرچ پر چار بار جی ایس پی پلس کے لیے ملک سے باہر گیا، میں بیرون ملک گیا تو گورنری جانے کی باتیں کی گئیں، جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، اس لیے اپنے بعض فیصلوں کی قربانی دی، پینے کےصاف پانی کی فراہمی کے لیے کوشش میرا جذبہ ہے، ایک سال ضائع ہوگیا، اب میرے پاس اس مقصد کے لیے4 سال ہیں ۔
چوہدری سرور کا مزید کہنا ہے کہ امریکا جانے کے چار مقاصد تھے، امریکا میں پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرنا تھا، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنا سرمایہ پاکستان لانے کا کہا، میں نے پاکستانیوں سے کہا کہ وہ امریکا کی سیاست میں اپنا حصہ ڈالیں، امریکا میں اعلیٰ حکام سے ملاقات میں پاکستان لرز کشمیر کا مقدمہ پیش کیا، یہ پہلا موقع ہے کہ امریکیوں نے پاکستان کے کسی وزیر اعظم کی مدبرانہ سیاست کو سراہا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے 4 سال محنت کی، لوگوں سے وعدے کیے، اب ان وعدوں کو پورا کرنے کا وقت ہے، میں سرور فاؤنڈیشن کا اب چیئرمین بھی نہیں رہوں گا، میرے اختلافات کی خبریں دینے سے اخبار زیادہ بکتا ہے یا ٹی وی شو زیادہ چلتا ہے تو کرتے رہیں، پنجاب کو 100 فیصد وزیراعلیٰ عثمان بزدار چلا رہے ہیں،کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عثمان بزدار کی طاقت شہباز شریف سے کم ہے تو وہ اُس کی بھول ہے۔
0 comments: