بے نامی ایکٹ میں ابہام سے کاروباری طبقے میں خوف کی لہر۔ 23 مارچ 20129

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 6:43:00 AM -
  • 0 comments

کراچی: 
حکومت کی جانب سے رواں ماہ نافذ کیے جانے والےبے نامی ایکٹ اور نان فائلرز کو 6فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر جائیداد اور گاڑیوں  کی خریداری کی اجازت کا قانون باہمی طور پر متصادم ہو گیا ہے۔

مقامی رئیل اسٹیٹ سیکٹر نے 14مارچ 2019 کو نافذ کردہ بے نامی ایکٹ میں متعدد اناملیز کی نشاندہی کرتے ہوئے ایکٹ سے متعلق وضاحت جاری کرنے کا مطالبہ کردیا ہے کیونکہ بے نامی ایکٹ میں ابہام کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری رکنے اور دیگر کاروباری شعبوں میں خوف وہراس کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے حال ہی میں بے نامی قانون نافذ کیا ہے جس کے تحت بے نامی رکھی جانے والی جائیداد، بینک اکائونٹس گاڑیوں اور سیکیورٹی پیپرز کی غیرقانونی ٹرانزیکشنز پر قابو پانا ہے۔
پاکستان رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ فورم کے صدر شعبان الٰہی کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے معیشت کودستاویزی بنانے کے لیے بے نامی ایکٹ کا نفاذ اگرچہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس قانون میں متعدد ابہام پائے جاتے ہیں، بے نامی ایکٹ سے متعلق اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بے نامی اکائونٹ یا جائیداد ٹیکس فائلرز یا نان فائلرز کے لیے ہے۔ فی الوقت ایک بڑی تعداد نان فائلرز کی ہے جبکہ ٹیکس فائلرزکی تعداد 12لاکھ ہے۔
ایف بی آر قوانین کے مطابق نان فائلرز کوبھاری ٹیکسوں کی ادائیگی پر بینک اکائونٹ کھولنے، جائیداد اور گاڑیوں کی لین دین کی اجازت ہے لیکن یہ اقدام حال ہی میں نافذ کیے جانے والی بے نامی ایکٹ سے متصادم ہے۔ ان عوامل سے بظاہر یہ محسوس ہوتاہے کہ نان فائلرزکی جائیداد، گاڑیاں اور سیکیورٹی پیپرز بے نامی تصور کی جائیں گی جو ایک بڑی اناملی ہے اور اس کی تشریح انتہائی ضروری ہے۔
ایف بی آر ایک جانب نان فائلرز پر بھاری ٹیکس عائد کررہا ہے اور دوسری جانب ان نان فائلرز کی جائیداد، گاڑیوں کو بے نامی تصور کیا جارہاہے جس سے مجموعی طورپر کاروباری طبقے میں خوف وہراس کی لہر دوڑگئی ہے۔ ان حقائق کے تناظر میں ایف بی آر کوچاہیے کہ وہ بے نامی ایکٹ کے حوالے سے وضاحت جاری کرے تاکہ کاروباری طبقہ بلاخوف وخطر اپنی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔

Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: