سانحہ ساہیوال، پوسٹمارٹم رپورٹ نے بھی دل دہلا دیئے 29 جنوری 2019

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 5:23:00 AM -
  • 0 comments
سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والے افراد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور زخمیوں کی میڈیکل رپورٹ نے پولیس کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔
سانحہ ساہیوال میں جاں بحق کار سواروں کو 34 کے قریب گولیاں لگیں، محمدخلیل اور ذیشان کا جسم گولیوں سے چھلنی تھا۔
خاتون نبیلہ کے سر میں گولی لگنے سے بھیجا باہر آگیا تھا،جبکہ 13 سالہ اریبہ کو گولیاں اتنی قریب سے لگیں کہ اس کی جلد بھی ہلکی سی جل گئی۔
رپورٹ کے مطابق زخمی ہونے والی 6 سالہ منیبہ کے ہاتھ میں شیشہ نہیں گولی لگی تھی، جبکہ ایک گولی کمسن عمیر کی داہنی ران کو چیرتی ہوئی دوسری جانب سے نکل گئی۔
جاں بحق 13 سال کی اریبہ کو6 گولیاں لگیں، پشت کی جانب سے چھاتی کی دائیں جانب 9 سینٹی میٹر کے ایریا میں 4 گولیاں پیوست ہوئیں جبکہ ایک گولی پیٹ کے درمیان اور ایک ٹانگ پر لگی، اریبہ کو اتنی قریب سے گولیاں ماری گئیں کہ اس کی جلد بھی ہلکی سی جل گئی۔
رپورٹ کے مطابق خاتون نبیلہ کو 4 گولیاں لگیں، سر میں لگنے والی گولی آرپار ہو گئی اور خاتون کا بھیجہ باہر آگیا، ایک گولی چھاتی کے درمیان میں لگی، خاتون نبیلہ کا پورا چہرہ پنکچرہو گیا لیکن رپورٹ میں چہرہ پنکچر ہونے کی وجہ نہیں بتائی گئی۔
فیملی کے سربراہ محمد خلیل کو 11 گولیاں لگیں، ایک گولی سر میں اور باقی جسم کے دوسرے حصوں میں لگیں۔
کار ڈرائیور ذیشان کو 13 گولیاں لگیں، دائیں جانب سے سر میں لگنے والی گولی سے ہڈیاں بھی باہر آگئیں اور گلے پر لگنے والی گولی سے آنکھ جیسا نشان بن گیا، باقی گولیاں جسم کے دوسرے حصوں پر لگیں۔
واضح رہے کہ 19 جنوری کی سہہ پہر سی ٹی ڈی نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک کار پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں اس میں سوار 4 افراد جاں بحق اور تین بچے زخمی ہوگئے تھے۔
واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا گیا تمام افراد کو دہشت گرد قراردیا گیا جب کہ بعد ازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔
Source-https://jang.com.pk/news/603357-postmortem-and-medical-reports-of-sahiwal-incident-victims 

Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: