پھولوں کی آبیاری بیٹی بیٹے میں فرق کیوں ؟ 25 جنوری 2019

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 10:29:00 PM -
  • 0 comments
’’ابھی تک تم دونوں نے اپنی ڈشز واش نہیں کیں؟ جلدی سے واش کرو، مجھے یہ سب گندا نہیں چاہیے۔ اگلے دس منٹ میں مجھے یہ سب صاف چاہیے۔ میں نے ابھی تم لوگوں کا کمرہ دیکھا، اتنا گندا۔ جلدی سے جا کر ٹھیک کرو، میں آ رہی ہوں دیکھنے۔ آج اتوار کا دن ہے، جلدی سے اپنا کمرہ صاف کرو، بستر کی چادریں نکال کر واشنگ مشین میں ڈالو، نئی چادریں بچھاؤ۔ جلدی سے اپنے کمرے کے ڈسٹ بن خالی کرو۔ اپنے کپڑے واشنگ مشین میں دھونے کےلیے ڈالے؟ جلدی سے کرو مجھے اپنے کپڑے بھی دھونے ہیں۔‘‘ یہ جملے ایک امریکی ماں کے تھے، اپنے 9 اور 11 سال کے بیٹوں کےلیے۔ وہ ہر روز انہیں ان کے کام اپنی نگرانی میں نہ صرف کرواتی، بلکہ انہیں اس بات کا احساس دلاتی کہ یہ کام ان کے اپنے ہیں جو انہیں خود کرنے چاہئیں۔ اب وہ اتنے بڑے ہوچکے ہیں۔ کام کے معاملے میں وہ سمجھوتہ نہیں کرتی تھی۔ پیار سے کہتی کہ یہ کام نہیں ہوا، جلدی سے کرو، بچے تھے کبھی بھول جاتے یا ٹھیک سے نہیں کرتے تھے، تو اس معاملے پر میں نے اسے غصے سے بات کرتے بھی دیکھا۔ امریکا میں اس فیملی کے ساتھ مجھے ایک سال رہنے کا اتفاق ہوا، اور یہ سب قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

یہ امریکا کے ہر گھر کی کہانی ہے، جہاں کا مرد اپنا کام خود کرتا ہے، اور اس میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ یہی سب آپ کویورپ میں ملے گا۔
ہمارے ہاں تو یہ تصور ہی نہیں کہ بچہ اس طرح سے اپنا کام کرے۔ پہلا المیہ تو ہمارے ہاں بہت گھرانوں میں آج بھی بیٹے کی پیدائش پر خوشی اور بیٹی کی پیدائش پر اداسی کا اظہار ہے، اور یہیں سے مزید فرق شروع ہو جاتے ہیں؛ جو کھانے پینے میں، نخرے اٹھانے میں، اور یہاں تک کہ کئی گھرانوں میں بیٹوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں اور بیٹیوں کو گورنمنٹ اسکولوں میں بھیجنے تک جیسے معاملے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کے حساب سے بیٹیوں کوزیادہ پڑھا کر کیا کرنا ہے، ان کی کل کو شادی کرنی ہے، اتنا خرچہ کیوں کریں ان کی پڑھائی پر۔
خود کے کام کرنے جیسے معاملے میں بھی ہم شروع سے ہی بیٹے اور بیٹی میں فرق کرتے ہیں۔ بیٹی کو تو خود کے کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں جو اچھی بات ہے، لیکن بیٹے کو خود کے کام کرنے کی ترغیب نہیں دیتے۔ یہ صرف ہمارے معاشرے میں ہی ہے۔ ہم نے شروع ہی سے گھر کے کام کرنے کو مرد کےلیے باعث شرمندگی بنا دیا۔ نتیجہ یہ کہ مغربی معاشرے کا مرد اپنے کام خود سے کرنے کا عادی، اور اس میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ خود کے کام کرنے سے ایک خودداری آتی ہے، اور یہ بچے کی تربیت کا سب سے اہم حصہ ہے، جسے بدقسمتی سے ہمارے معاشرے نے معیوب بنا دیا ہے۔
بہن چھوٹی ہو یا بڑی، ہم اسے شروع سے ہی کام کرنا سکھاتے ہیں۔ اپنے کام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بھائی کے کام بھی کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ مرد کو کھانا دینا، کپڑے دھوکر دینا، کپڑے استری کرکے دینا، اس کا کمرہ ٹھیک کرنا، اس کے جوتے صاف کرنا، غرض کہ اس کا ہر کام بہن، ماں، اور پھر بیوی، اور بیٹی کے ذمے ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنا اچھی بات ہے۔ اس سے رشتے مضبوط ہوتے ہیں، لیکن مرد کا خود کا کام خود کرنا ہم بچپن سے کیوں نہیں سکھاتے؟ جب ہم اپنی بچی کو سکھاتے ہیں کہ جب بھی گھر کا کوئی فرد یا مہمان آئے تو اسے سب سے پہلے پانی دینا ہے، لیکن یہی بات ہم اپنے بیٹے کو کیوں نہیں سکھاتے کہ جب آپ گھر پر ہوں اور آپ کی امی، بہن، بیوی، بیٹی باہر سے آئیں تو آپ اٹھ کرپانی پلائیے، یہ ثواب کا کام ہے۔ کیا ہمارے ہاں مردوں کو ثواب کی ضرورت نہیں؟ یہ تربیت دینا یقیناً ماں کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے ہاں کچھ ایسے گھرانے ضرور ہیں جہاں بچوں کو اپنے کام خود سے کرنے کی عادت ڈالی جاتی ہے، لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
اب خود سے کچھ کام کرنے کی عادت ماں نے نہیں ڈالی، اور بیوی وہ کام کروالے تو ہمارے ہاں اسے جورو کا غلام کہا جاتا ہے۔ اس میں بگاڑ عورتیں زیادہ کرتی ہیں۔ شادی کے بعد کچھ مرد ذمہ داری سے بیوی کی بات ماننے کی کوشش کرتے ہیں تو سب سے پہلے ماں اور بہنیں ہی بولتی ہیں کہ ہمارا تو آج تک ایک کام دس بار بولنے سے پہلے نہیں ہوا، اور بیگم کے آتے ہی کونسا جادو ہوگیا جو بولنے سے پہلے ہوجاتا ہے۔ آج تک گھر کا تو کوئی کام ہم نے اپنے بھائی سے نہیں کروایا، بہت ناز و نعم سے پالا ہے ہماری امی نے، اور اب دیکھو باورچی خانے میں نظر آتا ہے۔
میری ایک دوست نے بتایا کہ اس کی شادی کے شروع کے دن تھے۔ گھر میں بہت سے مہمانوں کی شام کے کھانے پر دعوت تھی۔ مہمانوں کے جانے کے بعد میں نے برتن سمیٹے، دھونے لگ گئی۔ برتن بہت زیادہ تھے، سوچا ابھی دھو لوں؛ لیکن سردیوں کے دن تھے۔ اتنے میں میرے شوہر بھی باورچی خانے میں آگئے، کہنے لگے کہ برتن دھونے تو نہیں آتے، لیکن باتیں ضرور کرسکتا ہوں۔ تو وہ کھانے کے بارے میں، مہمانوں کے بارے میں باتیں کرتے گئے اور کب برتن دھو لیے، پتا ہی نہیں چلا۔ ان کا اس طرح میری مدد کرنا ہمارے مضبوط رشتے کی بنیاد بنا۔ آپ سوچیے کہ مرد کا عورت کےلیے صرف احساس ہی کافی ہے۔ لیکن اگلی صبح اس کی ساس نے ناشتے پر کہہ دیا کہ رات تو بیگم کے ساتھ خوب برتن بھی دھوئے، خوب نام روشن کرو گے ہمارا خاندان میں۔ اب آپ ہمارا معاشرتی رویہ دیکھیے کہ ہم نے گویا گھر کے کام کو مرد کےلیے ہی باعث شرمندگی بنا دیا ہے۔
آپ سوچیے کہ ایک نبی کےلیے نبوت کتنی بڑی ذمہ داری ہے۔ اس سے بڑا کام دنیا میں کوئی نہیں۔ ہمارے نبیﷺ نے گھریلو کام جیسے کہ اپنے کپڑوں کو خود پیوند لگانا، جوتوں کی خود مرمت کرنا، سودا سلف خود لانا، اورکھانا پکانے میں ازواج مطہرات کی مدد کرنا، کرکے اپنی امت کے ہر مرد کو پیغام دیا کہ کتنے ہی بڑے بن جاؤ، اپنا خود کا اور گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنے سے آدمی چھوٹا نہیں ہوتا، بلکہ اس سے گھریلو رشتوں میں پیار بڑھتا ہے۔
کمرے سے نکلتے وقت لائٹس بند کر نے سے، رات کو اپنا کھانا خود گرم کر نے سے، اپنی چائے کا کپ خود دھونے سے، اپنے کمرے کو ٹھیک کرنے سے، گیزر کو خود آن اور بند کرنے سے، اپنے جوتے اور موزے ٹھیک جگہ رکھنے جیسے کام ہمارے معاشرے کے بیٹے، بھائی، یا شوہر اپنی ذمہ داری سمجھ کر کریں تو یقین جانیے، اس سے مرد کی شان میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ کیونکہ اگر آپ گھر میں خود کے کام میں ذمہ دار ہیں تو یقیناً باہر کے کاموں میں اور بھی ذمہ دار ہوں گے۔ میرا اپنی بہنوں سے التماس ہے کہ خدارا اپنے بیٹے اور بیٹی میں کام کے اعتبار سے فرق نہ کیجیے، اپنے بیٹے کو بھی خود کے کام کرنے کے معاملے میں ذمہ دار بنائیں تاکہ کل کو وہ ایک ذمہ دار اور احساس کرنے والا بیٹا، بھائی، شوہر اور باپ بن سکے، جو شاید آپ کو نہیں ملا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ڈاکٹر میشال نذیر

ڈاکٹر میشال نذیر

بلاگر حیاتی کیمیا (بایو کیمسٹری) میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اسلام اور سائنس کے موضوع سے خصوصی شغف رکھتی ہیں۔ جو کچھ ہمارے ارد گرد ہورہا ہے، اس سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی سوچ اور فکر، معاشرے کی وہ تصویر ہے جس میں دھنک کے سارے رنگ ہیں؛ اور جسے دیکھنے کےلیے خوبصورت آنکھ چاہیے، جو ہر رنگ میں چھپی خاموشی، شور، سکون، خوشی، غم، خیال، تصور، غرض کہ ہر معاشرتی احساس کو دیکھ، سن، سمجھ اور برداشت کرسکے۔
Source-https://www.express.pk/story/1512430/464/

Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: