سپریم کورٹ آف پاکستان نے خدیجہ صدیقی پر حملہ کرنے والے ملزم شاہ حسین کو گرفتار کرنے کا حکم د ے دیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے خدیجہ صدیقی قاتلانہ حملہ کیس کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ نےخدیجہ صدیقی حملہ کیس میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، سپریم کورٹ کے حکم پر شاہ حسین کو گرفتار کرلیا گیا۔
اس سے قبل دورانِ سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ملزم شاہ حسین کمرۂ عدالت میں موجود ہے؟
سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ جی ملزم شاہ حسین کمرہ عدالت میں موجود ہے۔
خدیجہ صدیقی کے وکیل نے کہا کہ ہائی کورٹ نے مقدمے کے مکمل شواہد کو نہیں دیکھا، خدیجہ صدیقی کی بہن بھی بطور گواہ پیش ہوئیں،خدیجہ صدیقی ملزم شاہ حسین کی کلاس فیلو تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملزم شاہ حسین نے خدیجہ پر خنجر کے 23 وار کیے، ملزم نے خدیجہ کی گردن پر بھی دو وار کئے، ڈاکٹرز کے مطابق جب خدیجہ کو اسپتال لایا گیا تو اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہائی کورٹ کا نتیجہ شواہد کے مطابق ہے؟ خدیجہ صدیقی ملزم کو جانتی تھیں، وہ کلاس فیلو بھی تھے، اس کے باوجود ملزم کو 5 دن کے بعد ملزم نامزد کیا گیا۔
خدیجہ صدیقی کے وکیل نے جواب دیا کہ حملے کے وقت خدیجہ صدیقی ہوش وحواس میں نہیں تھی،ایسے میں خدیجہ نے ڈاکٹر کو بھی اجنبی قرار دیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شاہ حسین نے ارادے کے ساتھ صرف خدیجہ صدیقی پر خنجر سے حملے کیے، ملزم نے کار کے ڈرائیور پر حملہ نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خدیجہ کی بہن حملے کے وقت حواس میں تھیں،انہوں نے بھی ملزم کی نشاندہی میں تاخیر کی، ملزم کو تاخیر سے مقدمے میں نامزد کیوں کیا گیا؟
وکیل نے مزید بتایا کہ 'زخمی خدیجہ 5روز بعد ہوش میں آئیں اور ہوش میں آتے ہی انہوں نے فوری طور پر ملزم شاہ حسین کا نام بطور حملہ آور لیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'دونوں قانون کے طالب علم تھے، لہٰذا قانون کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں،سب سے اہم یہ ہے کہ اگر ملزم شاہ حسین، لڑکی میں دلچسپی رکھتا تھا، تو وہ قتل کیوں کرنا چاہتا تھا؟
جسٹس کھوسہ نے مزید کہا کہ 'ملزم کے پاس کئی مواقع تھے کہ وہ خدیجہ کو قتل کردیتا، اس نے گنجان علاقے میں ہی قتل کیوں کرنا چاہا؟ کیا یہ بات ریکارڈ پر لائی گئی؟
خدیجہ صدیقی کے وکیل نے بتایا کہ 'یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ دونوں بہت قریبی دوست تھے اور قتل کی کوشش سے 7 ماہ قبل دونوں کے درمیان تعلق ختم ہو چکا تھا۔
وکیل نے مزید کہا کہ 'شاہ حسین اصرار کرتارہا جبکہ ان کی مؤکل خدیجہ انکار کرتی رہی، یہ اصرار اور انکار کا کیس ہے۔
چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ 'ریکوری میمو میں لکھا ہے کہ ہیلمٹ اور دو بال بھی ملے، کیا بالوں کا ڈی این اے کروایا گیا تھا؟
جس پر وکیل نے جواب دیا کہ 'خدیجہ حملہ کیس میں تفتیش ناقص رہی ہے، پولیس نے کہا کہ بال فرانزک لیب کو بھیجے تھے لیکن فرانزک لیب کو بال موصول نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 'لاہور میں خطے کی اولین اور دنیا میں دوسری بہترین فرانزک لیب ہونا قابل فخر بات ہے، ایسے مقدمات میں دو ہی صورتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ لڑکی میری نہیں تو کسی کی بھی نہیں، دوسری یہ کہ لڑکی کے پاس کچھ ایسا ہو کہ جس سے لڑکے کو بلیک میل کیا جائے۔
جسٹس کھوسہ نے دریافت کیا کہ 'کیا استغاثہ نے بھی لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی التجا کی ہے؟
خدیجہ صدیقی کے وکیل نے جواب دیا کہ 'عدالت معاملہ ہائی کورٹ کو بھیجنے کے بجائے جو بھی فیصلہ کرے گی، ہمیں قبول ہوگا۔
سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم شاہ حسین کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے سیشن کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ہے جس کے تحت ملزم کی 7 سال کی سزا کم کر کے 5 سال کر دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے خدیجہ صدیقی حملہ کیس کے ملزم شاہ حسین کو گرفتار کر لیا۔
واضح رہے کہ خدیجہ صدیقی سٹی لاء یونیورسٹی لندن میں بار ایٹ لاء کی طالبہ ہیں، شاہ حسین بخاری نامی شخص پر مئی 2016ء میں خدیجہ صدیقی پر خنجر کے 23 وار کرنے کا الزام ہے۔
ملزم شاہ حسین، ایڈووکیٹ تنویر ہاشمی کا بیٹا ہے جس کے خلاف اقدام قتل کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، اس کیس کی سماعت کے بعد مجسٹریٹ کورٹ نے شاہ حسین کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی، جس کے خلاف ملزم نے سیشن کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
شاہ حسین بخاری کی درخواست پر سیشن کورٹ نے مجسٹریٹ کورٹ کی جانب سے دی گئی 7 سال کی سزا کم کر کے 5 سال کر دی تھی،بعدازاں ملزم شاہ حسین کو لاہور ہائی کورٹ نے رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا۔
خدیجہ صدیقی کا اس کیس کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ ٹیسٹ کیس ہے اور حملہ آور کو سزا ملنے سے خواتین پر تشدد روکنے میں مدد ملے گی۔
Source-https://jang.com.pk/news/601233
0 comments: