دال چاول سے دنیا کو بچایا سکتا ہے؟ 19 جنوری 2019

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 6:48:00 AM -
  • 0 comments
کیا دال چاول دنیا کو بچا سکتا ہے؟، بڑھتی آبادی کے سبب دنیا کے گھٹتے وسائل پر بوجھ کم کرسکتا ہے؟
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنی خوراک کی پیداواراور کھانے پینے کی عادات میں بنیادی تبدیلیاں لے آئیں تو سال 2050 تک دس ارب تک پہنچ جانے والی دنیا کی آبادی کا مستقبل کسی حد تک محفوظ بنا سکتے ہیں۔
سائنسدانوں کا مزید کہنا ہے کہ غذائی قلت یا جان لیوا بیماریوں کی وجہ سے قبل از وقت موت کے منہ میں جانے والے ایک کروڑ سولہ لاکھ افراد کو بھی بچا سکتے ہیں۔
ناشتے میں دلیہ، دوپہر کے کھانے میں براؤن رائس، رات کے کھانے میں دال سبزی،اب کھانے پینے کا ڈھنگ تبدیل کرنا ہوگا۔
معتبرامریکی جرنل’The Lancet‘ میں شائع ہونے والی تحقیق میں ماحولیاتی اورغذائی ماہرین نے ڈھائی ہزار کیلوریز یومیہ پر مشتمل متوازن غذائی نسخہ پیش کیا ہے، جسے’سیو دی ورلڈ ڈائٹ‘ کا نام دیا جارہا ہے۔ یعنی آپ کو اور آپ کی زمین کو بچانے والی ڈائٹ۔
ماہرین نے تحویز دی ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں سادہ غذا کا انتخاب کریں، جس میں اناج، جو اور دالوں کا زیادہ استعمال ہو۔
گوشت کی چھٹی کریں، پھل، سبزیوں،لوبیا، چنا اور دالوں کی مقدار دوگنیکریں۔
جو اور براؤن رائس یا بھورے چاول خوب کھائیں، لیکن آلو کا استعمال کم کریں۔
ڈائٹ پلان میں کہا گیا ہے کہ گائے یا بکرے کے گوشت کے استعمال کو یومیہ 14 گرام تک محدود کرلیں، جس سے30 کیلوریز حاصل کی جاسکتی ہیں۔
مرغی کا گوشت 29 گرام تک استعمال کیا جاسکتا ہے جو ڈیڑھ چکن نگٹ کے برابر ہوتا ہے۔ انڈے کے استعمال کو13 گرام تک لائیں یعنی ہفتے میں صرف ڈیڑھ انڈا ، اس کے ساتھ ساتھ دودھ سے حاصل ہونے والی غذاؤں کی مقدار بھی محدود کرلیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس متوازن غذا کے ذریعے ہم بڑھتی آبادی کے سبب دنیا کے گھٹتے وسائل پر بوجھ کم کرسکتے ہیں۔
سال 2050 تک ممکنہ طور پر دس ارب تک پہنچنے والی دنیا کی آبادی کا مستقبل کسی حد تک محفوظ بنا یا جاسکتا ہے اور غذائی قلت یا جان لیوا بیماریوں کی وجہ سے قبل از وقت موت کے منہ میں جانے والے ایک کروڑ16 لاکھ افراد کا مستقبل بھی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
Source-https://jang.com.pk/news/599876-the-save-the-world-diet

Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: