پاکستان کی عوام نے تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا ہے۔ یہ کامیابی عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ تمام پاکستانیوں کو اور خاص طور پر شکست خوردہ بوسیدہ سیاستدانوں کو جنہیں عوام نے مسترد کیا ہے، کھلے دل سے تحریکِ انصاف کی کامیابی کوتسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئیے، کہ وہ 70 سال سے پاکستان اور اس کی مظلوم عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ کونسا طلم اور زیادتی ہے جو انہوں نے پاک وطن اور اس کے عوام کے ساتھ نہیں کیا۔
عوام کے ووٹ کی پرچی سے مسترد کیئے جاناان کی بہت معمولی سزا ہے ۔ کوئی عدالت اگر ان کے جرائم کی بنیاد پر انہیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سزا دیتی تو عوام کی اربوں روپے کی لوٹی ہوئی دولت کی پائی پائی ان سے وصول کی جاتی اور انہیں سو سو بار پھانسی کی سزا سنائی جاتی۔ اندرون اور بیرون ملک اپنی اولاد کیلئے درجنوں محلات اور ٹاورز کھڑے کرنے والوں نے پاکستان میں ہزاروں بستیاں اور شہر اجاڑ دیئے۔ جب ان کے جرائم اور مظالم کے بارے میں کوئی انسان سوچتا ہے تو اس کا خون کھولنے لگتا ہے۔
عوام کے ووٹ کی پرچی سے مسترد کیئے جاناان کی بہت معمولی سزا ہے ۔ کوئی عدالت اگر ان کے جرائم کی بنیاد پر انہیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سزا دیتی تو عوام کی اربوں روپے کی لوٹی ہوئی دولت کی پائی پائی ان سے وصول کی جاتی اور انہیں سو سو بار پھانسی کی سزا سنائی جاتی۔ اندرون اور بیرون ملک اپنی اولاد کیلئے درجنوں محلات اور ٹاورز کھڑے کرنے والوں نے پاکستان میں ہزاروں بستیاں اور شہر اجاڑ دیئے۔ جب ان کے جرائم اور مظالم کے بارے میں کوئی انسان سوچتا ہے تو اس کا خون کھولنے لگتا ہے۔
ووٹ کی پرچی سے مسترد ہونے کے بعد یہ سیاسی غلاظت اس قدر شور مچا رہی ہے جیسے پاکستان ان کی ذاتی جاگیر ہے اور اس پر حکومت کرنا ان کا پیدائشی حق ہے۔ ڈرو اس وقت سے جب عوام اپنے حقوق کیلئے تمہارا گھرا ئو کرے گی اور تمہیں بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملے گا۔
سیاسی جوقیں جو پاکستان اور اس کے عوام کا خون پی پی کر بد مست ہیں ۔ مدہوشی کے عالم میں چیخ چلا رہی ہیں کہ ہم تحریک چلائیں گے ۔
اب وقت بدل چکا ہے۔ عوامی شعور بیدار ہورہا ہے۔ عوام اپنے حقوق سے آگاہ ہوناشروع ہوگئے ہیں ۔ الیکشن 2018 کا نتیجہ ایک چھوٹا سا ٹریلر ہے ۔ ٹریلر سے ہی اتنا گھبراگئے ہیں۔ فلم تو ابھی شروع ہونی ہے۔ حوصلہ رکھیں ۔ جو پاکستان اور اس کی مظلوم عوام پر ظلم کیئے ہیں اس کا حساب شروع ہونے والا ہے ۔ 20 سال بعد کہتے ہیں روڑی کی بھی سنی جاتی ہے۔
نوشتہ دیوارپڑھ لینا چاہئیے۔ عمران خان نے قومی اسمبلی کی پانچ سیٹوں سے الیکشن لڑا ، کراچی ، میانوالی، لاہور،پشاور
اسلام آباد اور پانچوں حلقوں سے شاندار کامیابی حاصل کی ۔ یہ عزت تو ذوالفقار علی بھٹو کو بھی نصیب نہیں ہوئی تھی جنہوں نے پانچ حلقوں سے الیکشن لڑا تھا لیکن انہوں نے چار سیٹوں پر کامیابی حاصل کی لیکن ایک سیٹ ہار گئے تھے۔
مولٰنا فضل الرحمٰن جن کی سیاست کے بڑے چرچے ہیں۔ بڑے زیرک ، ذہین، اور جوڑ توڑ کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں۔ہر حکومت سے خواہ وہ پیپلز پارٹی کی تھی، ن لیگ کی یا فوجی انہوں نے ہر ایک سے مفادات حاصل کیئے۔ لوٹ مار اور مفادات کی سیاست کے دور میں اپنے آپ کو کامیاب ترین سیاستدان ثابت کیا۔ وہ زرداری صاحب کے بھی دوست ہیں اور میاں نواز شریف کے بھی۔ وہ جنرل پرویز مشرف کی آنکھ کا بھی تارا تھے۔ مولٰنا ہمیشہ حکومت میں شامل بھی رہے اور اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرتے رہے۔
مگر اب وقت بدل چکا ہے ۔ اپنے تمام تر کمالات اور خزانے کے باوجود حضرت صاحب اسمبلی سے باہر ہیں عوام نے انہیں مستردکردیا ہے۔
مولٰنا سب سے زیادہ شور مچارہے ہیں۔ فرماتے ہیں 1977 جیسی تحریک چلائوں گا۔ بڑے شوق سے چلائیں پہلے کوئی ایک کار کردگی یا کام جس سے عام عوا م کیلئے آسانی پیدا ہوئی ہو تلاش کرلینا۔
مولٰنا سب سے زیادہ شور مچارہے ہیں۔ فرماتے ہیں 1977 جیسی تحریک چلائوں گا۔ بڑے شوق سے چلائیں پہلے کوئی ایک کار کردگی یا کام جس سے عام عوا م کیلئے آسانی پیدا ہوئی ہو تلاش کرلینا۔
0 comments: