کپتان کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نےدھرنے کی طاقت اور اہمیت سے عوام کو اچھی طرح آگاہ کردیا ہے۔ لوگوں کو دھرنے کا ایسا چسکا لگ گیا ہے کہ وہ ہر وقت دھرنا دینے کیلئے کسی نہ کسی مسئلے کی تلاش میں رہتے ہیں۔
بھلا ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف بھی کبھی دھرنے ہوئے تھے۔
کپتان اسلیئے بھی منفرد حیثیت کے حامل ہیں کہ انہیں دھرنا دینے اور دھرنا لینے دونوں طرح کے تجربات ہو گئے ہیں ۔ دھرنا دینے اور دھرنا لینے کی لذ ت کو خان صاحب سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ امید ہے الیکشن کمپین کے جلسوں میں خان صاحب قوم کے ساتھ اس لذت کو ضرور شیئر کریں گے۔
جناب عمران خان صاحب نے اپنے بڑے یا چھوٹے بھائی جناب طاہرالقادری کے ساتھ ملکر 2014 میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت کو گرانے اور استعفیٰ لینےکیلئے 120 دنوں پر محیط تاریخ ساز دھرنادیا۔ مجھے یقین ہے اس دھرنے کو گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ضرور شامل کر لیا گیا ہوگا۔
بھلا ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف بھی کبھی دھرنے ہوئے تھے۔
کپتان اسلیئے بھی منفرد حیثیت کے حامل ہیں کہ انہیں دھرنا دینے اور دھرنا لینے دونوں طرح کے تجربات ہو گئے ہیں ۔ دھرنا دینے اور دھرنا لینے کی لذ ت کو خان صاحب سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ امید ہے الیکشن کمپین کے جلسوں میں خان صاحب قوم کے ساتھ اس لذت کو ضرور شیئر کریں گے۔
جناب عمران خان صاحب نے اپنے بڑے یا چھوٹے بھائی جناب طاہرالقادری کے ساتھ ملکر 2014 میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت کو گرانے اور استعفیٰ لینےکیلئے 120 دنوں پر محیط تاریخ ساز دھرنادیا۔ مجھے یقین ہے اس دھرنے کو گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ضرور شامل کر لیا گیا ہوگا۔
خان صاحب نے نہایت کامیابی کے ساتھ پاکستانی قوم کو دھرنوں کی تربیت دی۔ دھرنے میں خان صاحب نے ایسا شاندار ،تابناک ماحول پیدا کیا کہ شام کو ایک میلے اور شادی جیسا ما حول ہوتا اور لوگ خوب لطف اندوز ہوتے۔ قیمے والے نان روسٹ مرغے اور حلوہ پوڑی سے دھرنے کے شرکا کی خوب تواضع ہوتی رہی۔ خان صاحب بھی رات کے پچھلے پہر بنی گالا چلے جاتے اور پھر تازہ دم ہوکر شام کو کنٹینر پر سوار ہوجاتے ۔ اپنی زبان کو انتہائی تیز مرچ مصالحہ لگا کر انتہائی بے باقی اور مکمل آزادی ساتھ حکومت اور مخالفین کے پرخچے اڑاتے ۔ رعونت اور نفرت کے ساتھ مخالفین کی نقلیں اتارتے ۔ہربات کے ساتھ تمہیں شرم آنی چاہئیے کا اضافہ ضرور کرتے۔ ان کے نمکین ، مصالحے اور لچھے دار بیان سے دھرنے کے شرکائ بہت انجائے کرتے اور دل میں دعاکرتے یہ میلہ یونہی سجا بسا رہے اور کبھی ختم نہ ہو۔
خان صاحب نے ہار ماننا ، پیچھے ہٹنا اورغلطی تسلیم کرنا سیکھا ہی نہیں۔قوم کو بھی کامیابی کیلئے یہی گر سکھا رہے ہیں ۔ خان صاحب کی ضد تھی کہ نواز شریف سے استعفٰی لیئے بغیر دھرنا ختم نہیں کرنا۔ ان کے ایئر کنڈ یشنڈ دھرنا بھائی تقریباً ایک ہفتے کے بعد دھرنے کو خیر آباد کہہ کر جاچکے تھے ۔دھرنا لمبا ہوتا جارہاتھا، نواز شریف استعفیٰ دے نہیں رہے تھے ۔ استعفیٰ لیئے بغیر دھرنا ختم کرنا خان صاحب کی ضد کے شایانِ شان نہیں تھا، اس طرح خان صاحب 120 دنوں تک دھرنے میں پھنسے رہے ۔ اس دوران آرمی پبلک سکول پشاور کا نہایت افسوسناک اوردردناک سانحہ پیش آگیا اور خان صاحب کو دھرنا ختم کرنے کا ٹھوس جواز مل گیا اور آئندہ دھرنے سے توبہ کرکے گھر لوٹ گئے۔
قوم کو اب دھرنے کا چسکا لگ گیا ہے۔ انہوں نے 2014 والے خان صاحب کےدھرنے میں جو مزے اڑائے تھے وہ انہیں بھولنے کوتیار نہیں۔ وہ کسی نہ کسی دھرنے کی تلاش میں رہتے ہیں ۔
اس سے پہلے بھی لوگ ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف
پارٹی لیڈروں سے گلے شکوے کرتے رہے ہیں ،۔ ناراض اور مخالف بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف کبھی دھرنا دیکھنے میں نہیں آیاتھا ۔ شاید یہ خان صاحب کی تربیت کا اثر ہے یا مکافاتِ عمل ہے کہ خان صاحب وزیرِ اعظم بننے سے پہلے خود دھرنے کا شکار ہوگئے ۔ ان کے چاہنے والوں نے غضب استقامت کے ساتھ دھرنا دے کر بنی گالا کو گھیر رکھا ہے اور خان صاحب کو بے بس کر دیا ہے ۔
خن صاحب کے دھرنے کی برکت سے دھرنے کے نئے کھلاڑی بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ دھرنے کی برائی تیزی سے بچے دے رہی ہے۔ دو تین ہزار لوگ مل کر جب بھی چاہیں حکومت کو مفلوج کردیں اور مملکتِ خداداد پاکستان کا سارا نظام درہم برہم کردیں۔
علامہ خادم حسین رضوی دھرنوں کے نئے تاجدار ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں کس طرح اسلام آباد فیض آباد چوک پر دھرنا دے کر حکومتِ پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور پاک فوج کی ضمانت کے بعد دھرنا ختم کیا۔ جب کوئی ریاست اس قدر بے بس اور کمزور ہوجائے تو وہ عوام کو بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت کیسے دےسکتی ہے اور ریاست اپناوجود کیسے برقرار رکھ سکتی ہے۔
خان صاحب نے ہار ماننا ، پیچھے ہٹنا اورغلطی تسلیم کرنا سیکھا ہی نہیں۔قوم کو بھی کامیابی کیلئے یہی گر سکھا رہے ہیں ۔ خان صاحب کی ضد تھی کہ نواز شریف سے استعفٰی لیئے بغیر دھرنا ختم نہیں کرنا۔ ان کے ایئر کنڈ یشنڈ دھرنا بھائی تقریباً ایک ہفتے کے بعد دھرنے کو خیر آباد کہہ کر جاچکے تھے ۔دھرنا لمبا ہوتا جارہاتھا، نواز شریف استعفیٰ دے نہیں رہے تھے ۔ استعفیٰ لیئے بغیر دھرنا ختم کرنا خان صاحب کی ضد کے شایانِ شان نہیں تھا، اس طرح خان صاحب 120 دنوں تک دھرنے میں پھنسے رہے ۔ اس دوران آرمی پبلک سکول پشاور کا نہایت افسوسناک اوردردناک سانحہ پیش آگیا اور خان صاحب کو دھرنا ختم کرنے کا ٹھوس جواز مل گیا اور آئندہ دھرنے سے توبہ کرکے گھر لوٹ گئے۔
قوم کو اب دھرنے کا چسکا لگ گیا ہے۔ انہوں نے 2014 والے خان صاحب کےدھرنے میں جو مزے اڑائے تھے وہ انہیں بھولنے کوتیار نہیں۔ وہ کسی نہ کسی دھرنے کی تلاش میں رہتے ہیں ۔
خن صاحب کے دھرنے کی برکت سے دھرنے کے نئے کھلاڑی بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ دھرنے کی برائی تیزی سے بچے دے رہی ہے۔ دو تین ہزار لوگ مل کر جب بھی چاہیں حکومت کو مفلوج کردیں اور مملکتِ خداداد پاکستان کا سارا نظام درہم برہم کردیں۔
علامہ خادم حسین رضوی دھرنوں کے نئے تاجدار ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں کس طرح اسلام آباد فیض آباد چوک پر دھرنا دے کر حکومتِ پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور پاک فوج کی ضمانت کے بعد دھرنا ختم کیا۔ جب کوئی ریاست اس قدر بے بس اور کمزور ہوجائے تو وہ عوام کو بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت کیسے دےسکتی ہے اور ریاست اپناوجود کیسے برقرار رکھ سکتی ہے۔
0 comments: