کراچی کی بربادی کے متعلق ورلڈ بینک کی ہوشربا رپوٹ

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 5:47:00 AM -
  • 0 comments
عالمی بینک نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کراچی کی بربادی، بد حالی اور تباہی کی ایک چشم کشا رپورٹ شائع کی ہے۔ جس کے مطابق کراچی دنیا کے دس بد ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ بنیادی سہولتوں کیلئے کراچی کو آئندہ دس سالوں  میں دس ارب ڈالر یا 1200 ارب روپے درکار ہوں گے پھر یہ شہر اسی انداز میں اپنے پائوں پر کھڑا رہنے کے قابل ہوگا۔
 پاکستان کی مجموعی آمدنی کا 15 ٪ کراچی سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس بد قسمت شہر کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ سیورج کا نظام تباہ حال، شہری ٹرانسپورت کی حالت بد ترین۔ جگہ جگہ کوڑے اور کچرے کے ڈھیر۔
 ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے 40٪ شہریوں کا انحصار پبلک ٹراسپورٹ پر ہے لیکن کراچی میں 45 شہریوں کیلئے بس میں صرف ایک سیٹ میسر ہے جبکہ ممبئی کے 12 شہریوں کیلئے بس کی ایک سیٹ میسر ہے۔ 
کراچی میں کسی ٹرانسپورٹ پالیسی  کا نشان یا امکان دور دور تک موجود نہیں حالانکہ کراچی کی سڑکوں پر ایک ہزار گاڑیاں روزانہ بڑھ جاتی ہیں۔
کراچی کے شہریوں کوکل ضرورت کا صرف 55 ٪ پانی مہیا کیا جاتا ہے۔اس میں سے بھی ایک بڑاحصہ چوری اور فراہمی آب کے ناقص نظام کی نظر ہو جاتا ہے۔ شہر کا بڑا حصہ ٹینکر مافیا سے مہنگے داموں پانی خریدنے کیلئے مجبور ہے۔
کراچی کے 60 ٪ علاقوں کیلئے سیورج کا منظم نظام موجود ہی نہیں اس لیئے ہر سال مون سون کے سیزن کے دوران اربن فلڈ کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ 
1960 کے بعد سیورج کے نظام میں کوئی بہتری نہیں لائی گئی۔ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کام نہیں کر رہے صنعتی فضلہ سمندر میں بہا دیا جاتا ہےجس سے خطرناک آلودگی پھیل رہی ہے۔
کراچی مین روزانہ 12000 ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہے۔ جس میں سے 60٪ کوڑا ڈمپنگ سائٹس تک نہیں پہنچ پاتا۔ 80٪ طبی فضلے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہپین لگایا جاتا ۔
پچھلے 30 سال سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سندھ اور کراچی پر حکومت کر رہی ہیں اور 30 سالوں ہی سے سندھ اور کراچی کی بربادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام کو سوچنا چاہئیے یہ پارٹیاں اس قابل ہیں کہ اپنے ووٹ ان کے حق میں کاسٹ کرکے بربادی خریدی اور مسلط کی جائے۔ 

Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: