دار چینی CINNAMON BARK

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 5:06:00 AM -
  • 0 comments
دار چینی ایک درخت کی خوشبودار چھال ہے۔ دار چینی طاقتور، خوشذائقہ اور صحت بخش مسالا ہے جو کہ ہزاروں سال سے طبی فوائد کی وجہ سے دوا کے طور پر بھی پوری دنیا میں استعمال کی جاتی ہے۔
رنگ ۔ سرخی مائل
ذائقہ- تیز و شیریں
مزاج - گرم و خشک درجہ سوم
مقدار خوراک - ایک تا دو ماشہ
اس کا اصل مسکن چین ہے لیکن اب آسام اور لنکا میں بھی پیدا ہوتی ہے۔
افعال و استعمال 
اس کی تاثیر لونگ کی طرح ہوتی ہے ۔ اس میں کسی قدر ٹینک ایسڈ ہوتا ہے اسلیئے یہ قابض تاثیر رکھتی ہے۔
ملطف ارواح ہے،سدہ کھولتی ہے، مفرح ہے،محلّل ریاح اور ارواح کی محافظ اورمقوی ہے۔
کھانسی اور دمہ کیلئے شہد میں ملا کر چٹاتے ہیں۔
سردی کی وجہ سے پیشاب بار بار آتا ہو تو دار چینی کا سفوف دو ماشہ ہمراہ دودھ کھلانا مفید ہے۔
دار چینی کا روغن بھی نکالاجاتا ہےجو سرد بیماریوں اور سرد دردوں کے لیئے مفید ہے اور تقویتِ باہ کیلئے بطور طلا استعمال کرتے ہیں.
دارچینی اینٹی آکسیڈنٹ کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ سوزش کو ختم کرتی ہے۔
دل اور دماغ کو صحتمند رکھتی ہے اور ان کی کار کردگی بہتر بناتی ہے۔
دار چینی شوگر کنٹرول کرتی ہے۔شوگر کے مریضون کیلئے فائدہ مند ہے۔ 
دار چینی قوتِ باہ میں اضافہ کرتی ہے ۔ دار چینی باریک پیس کر رکھ لیں۔ دو دو ماشہ صبح شام نیم گرم دودھ کے ساتھ استعمال کریں۔باہ کی تقویت اور دودھ ہضم کرنے کیلئے بہترین اور سادہ نسخہ ہے۔
دار چینی زکام کا بہترین علاج ہے۔ اس کا موٹا سفوف چتکی بھر، مرچ سیاہ چٹکی بھر ایک گلاس پانی میں ڈال کر ابال لیں اور شہد ڈال کر استعمال کریں ۔ یہ انفلوئنزا گلے کی خراش اور ملیریا کا شافی علاج ہے۔
کولیسٹرول کی زیادتی ، ہائی بلڈ پریشراورشوگر کے مریض دار چینی پیس کر رکھ لیں اور آدھی چائے کی چمچ دن ایک یا دو بار کھائیں چند روز میں کولیسٹرول اور بلڈ پریشر نارمل ہو جائے گا اور شوگر کنٹرول کرنے میں بہت مدد ملے گی۔
دار چینی اعصابی تنائو کودور کرتی ہے۔معدہ میں بکٹیریا کی افزائش کو روکتی ہے۔گٹھیا کے مرض کیلئے فائدہ مند ہے۔



Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: