سوشل میڈیا بھی بعض لحاظ سے بڑے کام کی چیز ہے۔ لوگ اپنے اپنے انداز میں میں اپنے دل کی بھڑاس نکا لتے رہتے ہیں ۔ اسطرح لاوا آہستہ آہستہ خارج ہوتا رہتا ہے اور کسی بڑے طوفان یا زلزلے کا باؑعث نہیں بنتا۔
23 دسمبر کو کسی دل جلے نے سوشل میڈ یا پر بڑے خوبصورت انداز میں کرپشن سے نفرت اور عوام کے رویے سے مایوسی کا اظہار اسطرح کیا۔
کرپشن کی جھلک دیکھنے کیلئے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کراچی ایر پورٹ پر امڈآیا۔
پاکستانی عوام بڑی جی دار ہے۔ کسی لٹیرے حکمران کا احتساب یا سزا تو دور کی بات ہے ۔ کرپٹ اور لٹیرے حکمرانوں کوہی اپنے آپ پر مسلط رکھنا چاہتی ہے تاکہ اسی طرح ان کی خاطر تواضع جاری رکھیں۔
ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کرپشن کے عادی ہو گئے ہیں ۔ جب انسان کسی چیز کا عادی ہو جائے تو اسکو چھوڑنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جب بھی موقع آئے گا ہم کرپشن کو ہی منتخب کریں گے کیونکہ ہم اس کے عادی جو ہو گئے ہیں۔
کرپشن ہمارے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کرپشن بہت بڑا ناسور ہے ۔ کرپشن نے ہمارے ملک کو تباہ کردیا۔ کرپشن نے عام آدمی کو زندہ درگور کردیا ہے۔ کرپشن نے نوجوانوں سے روزگار چھین لیا۔ پاکستان وسائل کے لحاظ سے بہت مالا مال ہے۔ حکمران اورمقتدر طبقہ قومی دولت لوٹ لوٹ کر دوسرے ملکوں کی کرنسی اور اکانومی مظبوط کر رہے ہیں اور پاکستان کومقروض اور تباہ کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود فیصلے کی گھڑی آئے گی تو عوام کا فیصلہ کرپشن کے ہی حق میں ہوگا کیونکہ ہم کرپشن کی زہر کے عادی ہوگئے ہیں ہم اسے خدا حافظ نہیں کہے سکتے۔
حکمرانوں اور مقتدر لوگوں کیلئے پاکستان شکار گاہ ہے یہاں شکار کرکے اسے باہر لے جاتے ہیں اور وہاں اپنے لیئے اور اپنے بچوں کیلئے جنت آباد کرتے ہیں۔ اس ملک کیلئے مہنگائی بے روزگاری، بھوک ننگ اور تباہی باقی رہ جاتی ہے۔ پاکستانیوں کا کتنا بڑا ظرف ہے نہ کرپٹ حکمرانوں سے نفرت کرتے ہیں نہ کر پشن سے کیونکہ اس نمانی کی عادت جو ہوگئی ہے ۔
ٹارگٹ کلر ہو، بھتہ خور ہوں۔ ڈاکو ہوں ۔ شہروں کا امن وعوام تباہ کرنے والے ہوں ملک کی سالمیت کو دائو پر لگانے والے ہوں ووٹ ان کے ہی حق میں کاسٹ ہوگا ووٹ سے کیا ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا ۔ پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا ، کتابیں رسالے ۔ دفترں دکانوں گلیوں بازاروں چوک چوراہوں، گھروں، ہر جگہ لوگ ایک دوسرے کو کرپشن کی کہانیاں سنارہے ہوتے ہیں موجودہ نظام اور حکومت پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں۔ اور خود بڑے مظلوم بنے ہوئے ہوتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دن رات سب زیادہ تذکرہ اور تنقید کرپشن پر ہے۔ اخبار پڑھیں ٹی وی دیکھیں ۔ سیاسی جلسے سنیں کرپشن کرپشن کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا۔ زبانی جمع خرچ میں ہر شخص کرپشن کو ہمارے ملک کا سب سے بڑا ناسور سمجھتا ہے۔ ہر فرد کوموجودہ اور ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کے قصےاورکہانیاں اچھی طرح یاد ہیں لیکن کوئی نفرت نہیں جب وقت آئے گا ووٹ انہی کو جائے گا۔
عوام اور حکمرانوں کے دو گروپ بنا لیتے ہیں ۔ ایک گروپ کو کرپشن کے مواقع میسر ہیں وہ کرپشن کربھی رہا ہے عربون کھربوں لوٹ بھی رھا ہے اور کرپشن پر تنقید بھی کر رہا ہے ۔ ۔
دوسرا گروپ جس کو فی الحال کر پشن کرنے کے مواقع میسر نہیں ، لیکن کبھی قسمت کی دیوی ان پر مہربان تھی ان کو بھی لوٹ مار کرنے کی تمام سہولتیں میسر تھیں۔ انہوں نے بھی وقت ضائع کیئے بغیر کھربوں کے حساب سے مال بنایا۔ بقدر ضرورت اندروں ملک اور باقی بیرون ملک محفوظ کیا ۔ اپنی دانست میں اپنا مستقبل محفوظ کرلیا۔ وہ اس نظام کی فیوض وبرکات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ کچھ حکومتی اختیارہونے کے کیا کیا فوائد ہیں۔ انکی حالت بہت غیر ہے وہ اس طرح تڑپ رہے ہیں جس طرح مچھلی پانی کے بغیر تڑپتی ہے۔
ہمارے ملک میں کرپشن مذاق ہے ۔ ہر شخص اپنی استعداد اور طاقت کے مطابق کرپشن کر بھی رہا ہے اور چلا بھی رہا ہے موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ ان پر دن رات تنقید بھی کر رہے ہیں۔ لیکن جب موقع آتا ہے تو عوام ان کرپٹ حکمرانوں کے ہی حق میں فیصلہ دیتےہیں کہ حکمرانی اور لوٹ مار ان کا حق ہے جوتے کھانا اور رونا پاکستانی عوام کا مقدر ہے۔
کانٹے کاشت کرکے ہم پھولوں کی توقع کرتے ہیں۔
0 comments: